ستر کی دہائی سے شروع ہونےاور آج تک نہ ختم ہونےوالا پاکستان کا نازک دور

پاکستان اس وقت بڑے نازک دور سے گزر رہا ہے یہ الفاظ ستر کی دہائی سے لے کر اب تک مسلسل استعمال ہونے والے ایسے الفاظ ہیں جنہیں پاکستان کےتمام ہی شعبوں کے پستی پردہ ڈالنے کے لیے سیاستدان اور اسٹبلیشمنٹ وقفے وقفے سے استعمال کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں پاکستان کے لیے نازک دور قیامِ پاکستان کے ابتدائی سال ہی تھے لیکن اس کے باوجو دبانی پاکستان نےاس کھٹن صورتِحال کے باوجود نازک دور کے لفاظ استعمال نہ کیے بلکہ انہوں نے غلام قوم کو جمہوری جدو جہد (غیر مسلح ) کےذریعے آزادی دلوا ایک ایسی شمع روشن کی جس کی اُس وقت تک دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔
قائداعظم کا سیکولر پاکستان جسے 1956ء کے آئین میں اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دے دیا گیا

قائد اعظم ایک ایسے دور اندیش رہنما تھے جنہوں نے اُس وقت پاکستان کے نظام کو سیکولرازم (قائد اعظم اور سیکولرازم پر پہلے ہی کئی کالم لکھ چکا ہوں جو جنگ آرکائیو میں موجود ہیں ) کی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے ملک میں مذہبی انتہاپسندی کی راہ مسدود کردی تھی اور ان ہی کی منظوری پر پاکستان کا نام جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔انہوں نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں کہا تھا ’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘

یہ سچ ہے کہ قائد اعظم نے 11 اگست کی تقریر میں سیکولرازم کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گلاب کو کوئی اور نام دینے سے اس کی خوشبو میں فرق نہیں آتا۔ ’آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا عقیدے سے ہو سکتا ہے، مگر کاروبار ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں‘

اور ان کی وفات کے بعد ہر چیز میں اسلام کے لاحقے اور سابقے استعمال کرنے کے اصول پر عمل درآمد کرتے ہوئے پاکستان کے نام ’جمہوریہ پاکستان ” کے ساتھ بھی اسلامی کے الفاظ کو جوڑ دیا گیا (اگر قائد اعظم کے جمہوریہ پاکستان میں سیکولرزم پر عمل درآمد کیا جاتا تو پاکستان میں اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور جڑانوالہ جیسے واقعات رونما نہ ہوتے ) جیسا کہ عرض کرچکا ہوں قائد اعظم نےاُس دور میں جب مسلمانوں میں جہالت اپنے عروج پر تھی کسی قسم کی مسلح جدو جہد کے بغیر صرف اور صرف جمہوری طریقے کو استعمال کرتے ہوئے (ووٹ کو عزت دیتے ہوئے ) ایک نئی مملکت خداد کی بنیاد رکھی تھی اور اُس وقت پاکستان عالم اسلام کا واحد ملک تھا جہاں پوری طرح جمہوری اصولوں اور قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا تھا۔
پاکستان ستر کی دہائی تک بڑی سرعت سے ترقی کرنے والا ملک

اگرچہ ترکیہ ایک جمہوری ملک تھا لیکن ترکیہ میں پہلی بار جمہوریہ ترکیہ کے قیام کے 32 سال بعد 1955ء میں کثیر الجماعتی نظام پر مشتمل صاف اور شفاف انتخابات ہوئے جبکہ پاکستان کے قیام کے پہلے ہی روز سے ڈیمو کریسی پر پوری طرح عمل درآمد شروع ہوگیا لیکن قائد اعظم کے بعد پاکستان میں پارلیمانی نظام کامیابی سے نہ چل سکا اور صدارتی نظام اپنانے ہی سے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا (یہاں مقصد فوجی اقتدار کی تعریف کرنا ہر گز نہیں ) دراصل پاکستان ساٹھ کی دہائی کی ابتدا ہی سے سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا شروع ہوگیا تھا ۔
پاکستان کا معجزہ، پاکستان نے 1962 میں خلاء میں سیارہ روانہ کردیا

کیا آپ جانتے ہیں1961ء میں پاکستان میں قائم ہونے والے خلائی ادارے” سپارکو ” نے ایک سال بعد ہی 1962ء میں امریکہ کے تعاون سے خلاء میں اپنا پہلا سیارہ روانہ کرتے ہوئے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں۔ پاکستان کا پہلا راکٹ ’رہبر ون‘ 7 جون 1962 کو غروب آفتاب کے فوراً بعد لانچ کیا گیا۔ مشن کامیاب رہا اور مطلوبہ ڈیٹا کو ریکارڈ کرنے میں مدد ملی۔ بھارت بھی ناسا کے اسی پروجیکٹ کے ساتھ آن بورڈ تھا اور اس نے پاکستان کے فوراً بعد تھوبا رینج میں اپنا پروجیکٹ شروع کیا۔ لیکن انہیں اپنا راکٹ لانچ کرنے میں مزید ایک سال لگ گیا اور اب بھارت اس وقت دنیا کا پہلا اور واحد ملک ہے جس کے خلائی جہاز چندریان تھری نے چاند کے قطبِ جنوبی میں لینڈ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔

پاکستان نےاگرچہ 1962ء میں اپنا پہلا راکٹ رہبر ون خلاء کو روانہ کیا لیکن اس کے بعد یہ اداہ ایسی لمبی تان کر سویا کہ آج تک یہ ادارہ سوائے موسم سے متعلق خبروں کو دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرتا ہےجبکہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی چندریان تھری خلائی گاڑی چاند کے قطبِ جنوبی میں لینڈ کرنے میں کامیاب رہی ہے اور بھارت بھر میں خوشی کے شادمیانے بجائے جا رہے ہیں۔
بھارت کا چندریان تھری چاند پر اور پاکستان میں داتا دربار پر آن لائن دیگیں اور چادریں چڑھانے کی ایپ متعارف

ادھر پاکستان میں چند روز قبل پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ اور اسحاق ڈار نے داتادربار پر آن لائن دیگیں چڑھانے اور چادریں چڑھانے کی ایپ متعارف کرواکر پاکستان کو چار چاند لگا دیے ہیں ۔ محسن نقوی نےاس موقع پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے آن لائن نذرانہ ایپ کا افتتاح کر دیا ہے،کوئی بھی شخص آن لائن دیگ دے سکتا ہے اور چادر چڑھا سکتا ہے۔
(کتنے ہی افسوس کی بات ہے بھارت کا خلائی جہاز چاند پر چندریان تھریچاند کے قطبِ جنوبی میں کامیابی سے لینڈ کرچکا ہے اور ہم آج بھی آن لائن نذرانے دینے اور عید کے چاند کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے پر ہی اصرار کرتے چلے آرہے ہیں۔ بقول خواجہ آصف کے کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے )۔
کبھی آپ نے غور کیا قیام پاکستان کے بعدکے چند سالوں میں جب پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن تھا کوئی پاکستانی بھارت کا دورہ کرتا تو بھارتی پاکستانیوں کے ہشاش بشاش، شاداں و فرحاں ، خوش لباس، آزاد اور رہن سہن سے بڑے متاثر ہوتے تھے جبکہ اب پاکستانی بھارت کی ترقی، عالمی سطح پر پذیرائی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ماضی کا پاکستان دنیا کے لیے رول ماڈل
ہمیں ماضی کے پاکستان پر ایک نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ساٹھ کی دہائی کےاوائل میں پاکستان کی شرح ترقی 7 فیصد ، مینو فیکچرنگ میں 6٫7 اور زراعت میں شرح ترقی 9٫9 فیصدتھی ۔( جو بعد میں کبھی ممکن نہ ہوسکی اور ہم نازک دور میں داخل ہوگئے ) ۔ پاکستان دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن چکا تھا اور امریکہ پاکستان کی ترقی سے بہت متاثر تھا۔
جرمنی کو پاکستان کی جانب سے قرضہ

پاکستان نے ساٹھ ہی کی دہائی میں 20 سال کے لئے جرمنی کو 12 کروڑ روپے قرض دئیے تھے اور جرمن چانسلر نے اس مہربانی پر حکومت پاکستان کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا وہ خط آج بھی وزارت خارجہ کے آرکائیو میں محفوظ ہے۔ صدر ایوب ہی کے دور میں پاکستان میں پہلی بار سر پلس بجٹ پیش کیا گیا اور پاکستان کے پہلے پانچ سالہ منصوبے کے تحت بڑے پیمانے پر بیراج قائم کیے گئے( جبکہ بعد کے ادوار میں بیراج بنانے پر ہی اتفاق نہ ہوسکا ) اُس دور میں پاکستان میں دنیا کے سب سے بڑے نہری نظام کو حقیقت کا روپ دیا گیا اور نہروں کی اُس وقت کل لمبائی 56073 تک پہنچ گئی اوراس دور میں اقوام متحدہ نے پاکستان کی نہ صرف دل کھول کر تعریف کی بلکہ اقوام متحدہ کے کئی ایک اہم اداروں میں پاکستانیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔
پاکستان کا کوریا کے پہلے پانچ سالہ منصوبے کو تیار کرنا
کیا آپ جانتے ہیں اسی دور میں پاکستان نے کوریا کی ترقی کے لیے پانچ سالہ منصوبہ بنا کر پیش کیا اور کوریا نے اس منصوبے پر مکمل طور پر عمل درآمد کرتے ہوئے ترقی کی راہ اختیار کرلی اور کوریا آج بھی اس سلسلے میں پاکستان کا مشکور ہے اور پاکستان کے لیےہمیشہ نیک جذبات کا اظہار کرتا ہے۔
پاکستان ایشیا بھر میں تعلیمی مرکز

ساٹھ کی دہائی سے لے کر نوے کی دہائی تک پاکستان تعلیم و تدریس، علم و سائنس اور آرٹ کے شعبے میں نہ صرف قریب و جوار کے ممالک بلکہ، ترکیہ، عرب ممالک اور افریقی ممالک کی آنکھوں کا تارہ بنا ہوا تھا اور ان ممالک کے طلبا و طالبات پاکستان میں تعلیم حاصل کرنا اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ (ترکیہ کی اعلیٰ شخصیات میں سے برہان قایا ترک اور علی شاہین نے پاکستان ہی سےاعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔) لیکن بدقسمتی سے اب الٹی گنگا بہہ رہی ہے اور پاکستانی طلبا بڑی تعداد میں ترکیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
عروس البلاد کراچی

ساٹھ اور ستر کی دہائی تک پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی جسے ” عروس البلاد ” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا (اور جسے بعد میں ایم کیو ایم نے اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھادیا ) دنیا کے پُر امن، خوبصورت ترین اور جدید ترین شہروں میں سے ایک تھا ، دنیا کے تمام بڑی بڑی ائیر لائینز کے کراچی میں دفاتر موجود تھے اور دنیا بھر سے لوگ چھٹیاں منانے کراچی آیا کرتے تھے کیونکہ کراچی اس وقت دنیا کےگنے چنے چند ایک خوبصورت شہروں میں سے ایک تھا۔
پی آئی اے ایسا ادارہ جس کے سفر کو امریکی صدور میں ترجیح دیتے

پاکستان کے قومی ادارے (جب تک سیاست سے دور رہے ) اپنی ترقی کی معراج کو چھوتے رہے ۔ پی آئی اے جس کا موٹو باکمال لوگ لاجواب سروس تھا دنیا کی بہترین ائیر لائین سمجھی جاتی تھی ۔ اس دور میں اور امریکی صدور تک اس ائیر لائین پرسفر کرنا اپنے لیے ایک اعزا ز سمجھتے تھے۔

اُس وقت پی آئی اے ایشیا کی پہلی ائیر لائین تھی جس کے پاس جیٹ طیارے موجود تھے (اور اب تو طیاروں کو دیکھ کر ہی خوف محسوس ہوتا ہے ) ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ترکیہ کےشہر استنبول میں پہلی بار کسی ملک کے جمبو جیٹ طیارے نے استنبول کی سرزمین پر لینڈ کیا تو استنبول شہر میں تھرتھلی پڑ گئی تھی اور لوگ اتنے بڑے جہاز کو دیکھنے آتے رہے اور اخبارات میں اس جمبو جیٹ طیارے کی تصاویر شائع ہوتی رہیں۔
گرین پارک میں قائم دنیا کا خوبصورت دارالحکومت اسلام آباد: ترکیہ کےسابق صدر عبداللہ گل

پاکستان اُس وقت دنیا کا واحد ملک تھا جس نے آزادی اور قیام کے فوراً بعد کوئی قرضہ لیے بغیر ہی ایک جدید اور دنیا کاخوبصورت ترین دارالحکومت تعمیر کیا اور یہ شہر آج بھی اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ میرے کان میں آج بھی ترکیہ کے سابق صدر عبدللہ گل کے وہ الفاظ( جب میں نے ان کے مترجم کی حیثیت سے ان کے ساتھ سفر کیا تھا ) گونجتے ہیں جب انہوں نے کہا تحا کہ “اسلام آباد گرین پارک میں قائم کیا گیا دنیا کا خوبصورت ترین دارالحکومت ہے ” گونجتے ہیں ( موجودہ دور میں تو اس قسم کا شہر تعمیر کرنے کی پلاننگ کرنا ہی ممکن نہیں) ۔

پاکستان کے صدر کا ساٹھ کی دہائی میں امریکہ اور برطانیہ میں فقیدالمثال استقبال

ساٹھ ہی کی دہائی میں پاکستان کے صدر ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو امریکی صدر اپنی پوری کابینہ ، تینوں افواج کے سربراہان اور امریکی عوام نےائیر پورٹ پر پہنچ کر جس جوش و خروش سے پاکستان کے صدر کااستقبال کیا اس سے دنیا پر پاکستان کی دھاک بیٹھ گئی تھی۔ پاکستان کے صدر ایوب خان نے 1961 اور 1965 میں دو بار امریکہ کا دورہ کیا اور دنوں بار ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ (موجودہ دور میں امریکی صدور پاکستان کے کسی بھی وزیراعظم یا صدر سے صرف چند منٹ کی ملاقات ہی کو ترجیح دیتے ہیں )

صدر ایوب کا دورہ برطانیہ بھلا کون فراموش کرسکتا ہے۔دنیا بھر میں پاکستان کو جو مقام حاصل تھا اس کی ایک جھلک آپ اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں کس طرح ملکہ برطانیہ اور وزیراعظم برطانیہ نے ان دنوں پاکستان کے صدر کا والہانہ استقبال کیا تھا۔ یہ والہانہ استقبال پاکستان کی دی جانے والی عزت و منزلت ہی کی وجہ سے تھا۔

جنوبی ایشا پر حکمرانی کرتا پاکستان ٹیلی ویژن

کیا آپ کو معلوم ہے پاکستان ٹیلی ویژن چینل اسی کی دہائی تک اپنے ڈراموں اور پروگراموں کو صرف جنوبی ایشا کے ممالک ہی میں بڑے ذوق و شوق سےنہیں دیکھا جاتا تھا بلکہ ترکیہ تک اسکی مقبولیت تھی اور پاکستان کے ڈرامے ترکی زبان میں ڈب کرکے پیش کیے جاتے اور راقم نے بھی کئی ایک ڈراموں کا ترکی زبان میں ترجمہ کیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر چلنے والے ڈرامے بھارت کے لوگوں کے لیے باعثِ کشش تھے اور پاکستان کے ڈرامے بھارت کی سڑکوں کو ڈرامے کے وقت سنسان بنا دیتے اور سڑکوں پر اک دکا افراد ہی نظر آتے۔
پاکستان نے ہمیشہ برادر ملک ترکیہ کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے

پاکستان نے ترکیہ کے واحدسرکاری نشریاتی ادارےٹی آر ٹی کو ڈرامے ہی پیش نہ کیے بلکہ پاکستان نے ٹی آر ٹی کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں بڑے پیمانے پر تکنیکی امداد بھی فراہم کی پاکستان ٹی وی نے ترکیہ کے سرکاری ادارے ٹی آر ٹی کی بڑے پیمانے پر تکنیکی مدد بھی کی تھی ۔ پاکستان نے صرف ٹی آر ٹی ہی کی نہیں بلکہ ترکیہ کے ڈاک اور ٹیلی فون کے ادارے جسے اُس دور میں PTT کے نام سے یاد کیا جاتا تھا تکنیکی امداد فراہم کی اور ترکیہ کے بینکنگ سسٹم کو بھی بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ترکیہ میں ترگت اوزال کے دور تک بند منڈی اقتصادیات کے نظام پر عمل درآمد کیا جاتا تھا اور ترگت اوزال نے آزاد منڈی اقتصادی نظام کے لیے اپنے ماہرین کو مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ٹریننگ کے لیے بھجوایا ۔ ترگت اوزال کو پاکستان سے بڑی گہری محبت تھی انہوں نے اپنے ملک میں انگریزی زبان میں تعلیم فراہم کرنے کے فیصلے کے بعد برطانیہ یا مغربی ممالک سے انگریزی زبان کے اساتذہ کی جگہ پاکستان سے انگریزی زبان کے اساتذہ کو بلو اکر اور انہیں تعینات کرکے پاکستان سے اپنی محبت کا گہرا ثبوت فراہم کیا۔نوے کی دہائی میں ترکیہ کمپویٹر کے استعمال میں بہت پیچھے تھا اور پاکستانی ماہرین نے ان کو کمپویٹر کی ٹریننگ فراہم کی جبکہ ڈرون تیار کرنے سے متعلق بھی ترکیہ کو غیر ممالک میں آباد پاکستانیوں نے ٹریننگ فراہم کی اور ترکیہ کے کئی اداروں جس میں دفاعی صنعت کے ادارے پیش پیش ہیں پاکستانی اپنے تجربات سے آگاہ کرتے رہے ہیں جبکہ پاکستان نے خود کبھی بھی ان پاکستانیوں کے تجربات سے استفادہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے اب ترکیہ کمپویٹرٹیکنولوجی، سافٹ وئیر اور ڈرو نز کی تیاری میں پاکستان سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ ان کو ٹریننگ دینے والا ملک وہاں کا وہاں ہی کھڑا نہیں رہا ہے بلکہ اس نے ریورس گئیر پراپنی ترقی کے دروازے ہی بند کررکھے ہیں۔ اسی طرح ترکیہ کے انگریزی ٹی وی چینل ٹی آر ٹی ورلڈ اور انادولو نیوز ایجنسی کے انگرزی شعبے کو اپنے پاؤں پرکھڑاکرنے کے لیے پاکستانی صحافیوں پر ترکیہ کو مکمل بھروسہ ہونے کی وجہ سے پاکستان ہی کو ترجیح دی گئی ہے اور یہ ادارے اب انٹرنیشنل سطح پر اپنی مہر ثبت کرچکے ہیں لیکن ہمارا پی ٹی وی کہاں کھڑا ہے؟ وہ بھی اپنی ماضی کی شان و شوکت اور اپنے مقام کو بھول کر ڈگمگا رہا ہے۔
پاکستان نے قبرص جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترکیہ کی بھر پر مدد کی

اس حقیقت کا بھلا کون فراموش کرسکتا ہے جب ترکیہ میں ستر کی دہائی کے بعد دہشت گردی اپنے زورں پر تھی اور مغربی ممالک نےترکیہ کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرنے پر پابندی لگا دی تھی یہ پاکستان ہی تھا جس نے اس وقت ترکیہ کی مدد کی اور بہت بڑی مقدار میں گولہ بارود فراہم کیا۔ کیا 1974ء کی قبرص کی جنگ میں کسی بھی ملک نے ترکیہ کی مدد یا حمایت کی تھی؟ نہیں ہرگز نہیں صرف ایک ہی ملک جس نے ترکیہ کی جنگ آزادی (جنگ استقلال) کے موقع پر ترکیہ کی مدد کی تھی وہی ملک (پاکستان) قبرص کی جنگ میں بھی ترکیہ کی مدد کو دوڑا تھا ۔

یہ تھا ماضی کا پاکستان جو بڑی تزی رفتاری سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا لیکن اب وہ سیاستدانوں اور فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کی وجہ (اگرچہ صدر ایردوان سے پہلے تک ترکیہ میں بھی فوج سیاست میں مکمل طور پر ملوث رہی ہے ) سے اے اپنی رفتار برقرار رکھنا تو درکنار اب وہ ریورس گئیر پر ہی چلنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔
ریورس گئیر سے صدرِ پاکستان بھی متاثر

پروٹوکول کے لحاظ سے اس وقت پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب پر موجود صدر کے بلوں پر دستخط نہ کیے جانے کے باوجود اگر وہ بل قانون کی حیثیت حاصل کرلیتے ہیں تو پھر اس ملک کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے ؟ یہ رویورس گئیر پر نہیں ہے تو کس گئیر پر ہے؟
خدشہ ہے ریورس گئیر پر چلتے چلتے پاکستان کہیں بنانا ریپبلک نہ بن جائے

پاکستان نے ساٹھ کی دہائی میں جس سرعت سے ترقی کی کاش وہ دن اور وہ لوگ واپس آجائیں اور پاکستان کو پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن کردیں ۔ ہمارے تمام قریب و جوار کے ممالک جن کو پاکستان ٹریننگ دیتا رہا ہے وہ ہم سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔ اب شاید ہمارا مقابلہ صرف افغانستان ہی سے رہ گیا ہے اور مجھے ڈر ہے جس طرح بنگلہ دیش جو ہماری نظروں میں دو ٹکے کا ملک تھا آگے نکل چکا ہے اور اب صرف افغانستان ہی رہ گیا ہے کیونکہ ہم نے آگے تو بڑھنا نہیں ۔ کب یہ ریورس گئیر نارمل گئیر میں تبدیل ہوگا۔ اب صرف اس کا ہی انتظار ہے۔ ہماری زندگی میں تو ایسا نظر نہیں آتا شاید ہماری آنے والی نسلوں کو احساس ہو اور وہ گئیر بدلنے میں کامیاب ہو جائیں۔