Tr-Urdu
    Facebook Twitter Instagram
    Facebook Twitter Instagram
    Tr-Urdu
    Subscribe
    • صفحہ اول
    • ترکیہ
    • پاکستان
    • پاکستان کمیونٹی
    • کالم اور مضامین
    • میگزین
    • تعلیم
    • ویڈیو
    • دلچسپ حقائق
    • دنیا
    Tr-Urdu
    You are at:Home»پاکستان»پاکستان اور ترکیہ میں افواج کی زیر سرپرستی جماعتیں کیوں ناکام رہتی ہیں ؟ پاکستانی سیاستدانوں کو ایردوان اور پاک فوج کو ترک فوج سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ایردوان کی فوج پر مکمل گرفت؟
    پاکستان

    پاکستان اور ترکیہ میں افواج کی زیر سرپرستی جماعتیں کیوں ناکام رہتی ہیں ؟ پاکستانی سیاستدانوں کو ایردوان اور پاک فوج کو ترک فوج سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ایردوان کی فوج پر مکمل گرفت؟

    سلمان پاک ترکBy سلمان پاک ترک10جون , 2023Updated:10جون , 2023کوئی تبصرہ نہیں ہے۔10 Mins Read
    پاک-ترک افواج
    پوسٹ شئیر کریں
    Facebook Twitter LinkedIn Email

     

    )ترکیہ کی پہلی  اور واحد  غیر جانبدار اُردو  نیوز ویب سائٹ ہے۔ اس ویب  سائٹ  میں ترکیہ کی بر سر اقتدار  اور اپوزیشن تمام  ہی  جماعتوں  اورقائم  اتحاد   سے متعلق  خبروں، تبصروں اور سروئیز  کو  بلا امتیاز  جگہ دی  جاتی ہے۔ ان تمام خبروں  اور سروئیز کے  ذرائع  ترک میڈیا اور ایجنسیاں ہی ہیں ۔اس  نیوز ویب سائٹ  کا ان خبروں اور تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

    پاکستان  دنیا کا عجیب ملک ہے جہاں ڈیموکریسی کے نام پر  ماضی  سے لے کر  اب تک فوج  پردے کے پیچھے بیٹھے نہیں بلکہ سر عام   سیاستدانوں کی  ڈوری ہلا رہی ہے(ترکیہ میں ایسا ماضی سے  ایردوان دور  سے قبل تک ایسا  ہی ہوتا رہا  ہے  )   اور سیاستدان  بھی ما شاللہ فوج کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے پر  فخر محسوس کررہے ہیں اور فوج کو اپنا نا خدا سمجھتے ہوئےفوج ہی کے ہاتھوں   اپنے  چہرےپر غلیظ دھبہ لگنے کو خوش قسمتی سمجھ رہے ہیں ۔ وہ اس بد نما داغ کو اپنے لیے نشانِ حیدر  قرار دے رہے ہیں  اور یہ نشانِ حیدر ان کے لیے  پاکستان میں قائم ہونے والی نئی جماعت میں اعلیٰ عہدے پر فائض ہونے کی راہ ہموار کررہا ہے۔  ہمیشہ ہی غیر ملکی قوتوں  اور ممالک نے پاکستان میں اقتدار سیاستدانوں کے پاس نہیں بلکہ فوج کے پاس   ہونے اور  سیاستدانوں کی ڈوری  ان ہی کی جانب سے   ہلائے جانے کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ویسے بھی فوج ان سیاسی بندروں  کے تماشے پر مہارت رکھتی ہے اور وہ پہلے کئی بار ان سیاسی بندروں   کی ڈوری ہلاتے ہوئے تماشہ کروانے کو ملکی آئین  میں دیے جانے والے اختیار  کا ایک حصہ سمجھتی ہے اور جب کبھی کوئی سیاسی بندر ان کی بجائی ہوئی ڈگڈگی پر تماشہ نہیں کرتا ہے نئے سیاسی بندر کو منظر  عام  پر لایا جاتا ہے۔

    اسکندر مرزا

    دیکھا جائے  سیاسی بندروں کا تماشا  پاکستان نے اپنے برادر اور دوست ملک ترکیہ  ہی سے سیکھا  ہے، جہاں  فوج صدر ایردوان  کے اقتدار سے قبل  ہمیشہ ترکیہ کے سیاسی بندروں کا تماشا کرنے  کے لیے ڈگڈی بجایا کرتی تھی   اور فوج کی ڈگڈگی پر یہ تمام سیاسی  بندر  یکجا ہو کر   فوج کی ڈوری کے ذریعے   قائم  حکومت کو گرانے میں کامیاب  ہو جاتے۔ اگرچہ  صدر ایردوان پر ڈکٹیٹر ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے  اور الزام لگانے والے وہی سیاسی بندر  ہیں جو ہمیشہ اس سے قبل فوج کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننا  اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتے رہے ہیں لیکن اب فوج کی سیاست پر گرفت مکمل طور پر ختم ہونے پر  سویلین  صدر کو ڈکٹیٹر قرار دے رہے ہیں حالانکہ یہی وہی صدر ہیں جنہوں نے اکیس  سال برسر اقتدار رہنے کے باوجود آج بھی پہلے دن کی طرح مقبولیت قائم کررکھی ہے  اور حالیہ صدارتی  انتخابات میں باون فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ 

    جنرل ایوب خان

    ایردوان سے قبل ترکیہ

    پاکستان  میں اس وقت  جس   صورتِ حال   کا سامنا ہے وہ  ترکیہ کی ایردوان  دور  سے قبل کی صورتِ حال جیسی  صورتِ حال ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ  اگر   ایردوان  ترکیہ کی  تاریخ میں یاد رکھا جائے گا تو وہ  ان کے  ” فوج پر مکمل طور پر کنٹرول کرنے کی میکانزم کی وجہ سے ہوگا۔ انہوں نے فوج پر مکمل گرفت   گھر بیٹھے ہی  حاصل نہیں کرلی ہے  بلکہ اس کے لیے انہیں  بڑے پاپڑ بیچنے پڑے ہیں اور انہوں نے اپنی جان کی بھی  پرواہ  کیے بغیر  ترکیہ کو ہمیشہ ہمیشہ  کے لیے فوج  کی گرفت سے مکمل طور پر  آزاد کروالیا ہے اور سب سے اہم بات  جو ترکیہ اور پاکستان میں فرق ہے لوگوں نے اپنے آنکھوں سے  عام افراد کو ڈیموکریسی  کی خاطر  ٹینکوں کے آگے لیٹتے ہوئے  اور جان قربان کرتے ہوئے دیکھا لیکن سلام ہے، اس قوم کو اور   ایردوان حکومت  کو جنہوں نے آج بھی ترک فوج  کی ذرہ  بھر بھی  بے عزتی نہیں  ہونے دی گئی بلکہ آج بھی ترک فوج کی عزت و تکریم  اسی طرح قائم ہے جیسے  16 جولائی 2015 کی ناکام بغاوت سے پہلے قائم تھی۔

    جنرل ضیا الحق

    پاکستان  کی موجودہ صورتِ حال

    پاکستان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ پاکستان میں اب بھی  فوج ،  پاکستان اور سیاستدان( مجھے سیاست دان کہتے ہوئے شرم  محسوس ہوتی ہےتاہم ابھی بھی چند گنے چنے سیاستدان ایسے ہیں   جو   اپنی پارٹی کے بیانیہ کی پرواہ کیے بغیر صحیح معنوں  میں ڈیموکریسی پر عمل درآمد کررہے ہیں    ) سیاسی  بندر کہا جائے تو یہ سیاستدانوں کے لیے عین مناسب ہوگا بلکہ یہ اب بندروں سے بھی زیادہ سیاسی  قلابازیاں لگا کر  بندروں کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔

    قائد اعظم  کی فوج سے متعلق پالیسی

    جیسا کہ عرض کرچکا ہوں پاکستان میں  فوج  قائد اعظم  کے بعد ( قائد اعظم نے  کبھی بھی  فوج کو اپنے پاس تک پھٹکنے نہیں دیا تھا  بلکہ سیاسی جدو جہد ہی کے نتیجے میں پاکستان کے معرض وجود میں  آنے کی وجہ سے  فوج کو صرف اور صرف سرحدی  حفاظت کے لیے مامور کیا )   لیکن قائد اعظم کی رحلت کے بعد فوج نے پاکستان کی سیاست میں  دخل اندازی  کرنے  کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کردیا اور فوج نے سیاستدانوں کے لیے بندر اور ڈگڈگی کے کھیل  کا آغاز کیا جو کسی دور میں ترکیہ کی فوج کا سب سے اہم ہتھیار تھا۔

      ترکیہ میں میندریس اور پاکستان میں بھٹو کو پھانسی   

    شہید عدنان میندریس
    شہید ذوالفقار علی بھٹو

      فوج نے ہمیشہ سیاستدانوں جن کی عوام میں کوئی جڑیں نہ تھیں (سوائے  ذوالفقار علی بھٹو کے ۔ آپ ان سے اور  ان کی سیاست سے

    اختلاف کرسکتے ہیں ) لیکن یہ ایک حقیقت ہے  کے پاکستان میں اگر   عوام کو سیاسی  شعور حاصل ہوا تو یہ بھٹو ہی   کی  مرہونِ منت ہے ۔بھٹو  نے پاکستان میں بہت غلط وقت پر سیاست کی  اگر وہ موجود دور میں پاکستان کی سیاست میں ہوتے تو  حالات صدر ایردوان کے موجود دور کے حالات سے مختلف نہ ہوتے۔ ایردوان سے قبل کے دور میں ترکیہ میں  فوج نے سیاست کو اپنا اوڑنا بچھونا  بنا  رکھا تھا  اور انہوں نے  اس وقت کے   ترکیہ کے   ہر دلعزیز سیاسی رہنما   عدنان میندریس کوملک میں سیکولرازم  کے اصولوں کی خلاف ورزی کے الزام میں  پھانسی دے دی تھی  بالکل اسی طرح   پاکستان    میں فوج   نے جب بھٹوکو اپنے لیے خطرہ سمجھا تو انہوں نے اپنے برادر ملک  ترکیہ  سے سبق حاصل کرتے ہوئے بھٹو کو تختہ دار  لٹکانا اپنے لیے فخر سمجھا۔

    فوج کیوں سیاستدانوں سےتگنی کا ناچ نچواتی ہے؟   

    ترک فوج نے  جس طرح ستر کی دہائی سے2002 تک  سیاستدانوں کو تگنی کا  ناچ نچوا رکھا تھا بالکل اسی  صورتِ حال کا  ان دنوں پاکستان  کو سامنا ہے۔ پاکستان میں فوج نے سب سے پہلے اسکندر مرزا کے دور میں ری پبلیکن پارٹی ، صدر ایوب نے کنونشن مسلم لیگ، صدر ضیاء الحق نے  دو ٹکے کی سیاسی جماعتوں   کی قدرو قیمت  میں اضافہ  کرتے ہوئے  اسلامی جمہوری اتحاد  قائم کیا تو بھلا صدر پرویز مشرف   کہاں پیچھے رہنے والے تھے، انہوں نے بھی  ڈگڈگی    بجاتے ہوئے   سیاسی بندروں  کو یکجا کرنے  کا اہم فرئضہ ادا کیا اور انہوں نے بھی   قاف لیگ کےنا م سے   نئی سیاسی جماعت  قائم کی اور  اس ڈگڈگی کو اپنا دین اور ایمان  سمجھنے  والے سیاستدانو ں  کو قاف لیگ  میں جمع کیا۔

    جنرل پرویز مشرف

    ترکیہ میں  صدر کنعان ایورن کے دور تک  ہر دس سال بعد مارشل لاء لگتا رہا  اور مارشل لاء  کے ان ادوار میں    سیاستدانوں  کو جیلوں میں ڈالنا ، پردے پیچھے مذاکرات کرنا  اور نئی جماعت تشکیل دینا یا جماعتوں سے وفاداری  تبدیل کروا نا  فوج کا خاصہ تھا  لیکن ایردوان   کے برسر اقتدار آنے کے بعد  یہ کھیل اپنے انجام کو پہنچا ۔ یہاں اب یہ صورتِ حال ہے کہ کسی بھی ترک سے اگر آپ ترک آرمی کی چیف  یا پھر چیف آف جنرل اسٹاف کا نام پوچھیں  گے تو کسی کو بھی یاد نہ ہوگا  البتہ ان کو تمام وزراء  کے نام زبانی یا دہوں گےتاہم یہ بھی حقیقت ہے ترکوں کے دلوں میں   فوج  کی عزت و  تکریم میں ذرہ بھر بھی کمی نہیں آئی ہے بلکہ وہ  فوج کی عزت و  تکریم کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔  

     

     عمران خان کی  غلطیاں

    عمران خان

    عمران خان نے اپنے دور میں   کئی ایک فاش  غلطیاں بھی  کیں  جن  کا خمیازہ وہ اب بھگت رہے ہیں لیکن ایک لحاظ سے  میری ذاتی رہے کے مطابق بہت اچھا ہوا ہے کیونکہ اُن کو   اس سے قبل کبھی بھی اپنی جیب میں موجود یہ  گندے انڈے نظر نہیں آئے تھے۔ اب یہ گندے انڈے  کس کے حکم پر   عمران خان  کو چھوڑ کر گئے ہیں سب کو معلوم ہے   اور ان سب گندے انڈوں کو ملا کر ایک نئی” استحکام پاکستان”  کے نام  سے  جماعت قائم کی گئی ہے۔ نام کیا  رکھا ہے ” استحکامِ پاکستان” ڈوب مرنے کا مقام ہےاس سیاسی جماعت  کے سیاسی بندروں  کے لیے  جو اپنی جماعت تک میں استحکام قائم نہیں کرسکتے وہ بھلا پاکستان میں کیا استحکام قائم کریں گے؟   یہ تمام لوگ تو فسادی ہیں  اور ان سے بھلا کون  استحکام  کی توقع کرسکتا ہے؟  اللہ تعالی کے ہر کام میں بہتری  ضرور ہوتی ہے۔ جو شخص بھی ان گندے انڈوں کو ووٹ ملنے کی توقع رکھتا  ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔  ان بھانڈوں  کی  جماعت  کو تشکیل  دینے کا جس نے بھی بیڑہ اٹھایا  ہے ، اس نے دراصل  عمران خان  کے لیے  آئندہ کے لیے  سچے موتی چننے کی راہ ہموار کردی ہے(عمران خان نے  اپنے  نوجوان ساتھیوں اور نئے سُچے موتیوں کو ٹکٹ نہ دے کر  سب سے بڑی غلطی کی تھی )  اللہ  و تعالیٰ  نے عمران خان کو ایک اور موقع دیا ہے  اور اب انہیں آئندہ انتخابات میں الیکٹیبلز کی بجائے ان سُچے  موتیوں کو ترجیح دینا ہوگااور   تمام کالی بھڑوں  سے نجات پانا ہوگا۔

    فوج  کا سیاستدانوں کے لیے نیا لالی پاپ

    نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان

      یہ بھی  ایک حقیقت ہے پاکستان میں فوج کی نگرانی میں بنائی جانے والی کوئی بھی جماعت  ماضی کے ترکیہ کی طرح  کبھی   بھی کامیاب نہیں ہوئی ہے نہ آئندہ  ہوسکتی ہے۔  عمران خان بھٹو کے بعد پہلے لیڈر ہیں جنہوں نے پشاور سے لے کر کراچی تک تمام علاقوں میں یکساں   عوامی مقبولیت  حاصل کرکھی ہے (شاید اتنی عوامی مقبولیت بھٹوکو بھی حاصل نہ ہوئی تھی) تحریک انصاف کو ترک کرکے قائم  ہونے والی  جماعت میں  کوئی بھی لیڈردس ہزار ووٹ لینے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا ہے۔

    16 جولائی 2015 ناکام بغاوت

    یہ   فوج  کے لیے  بھی موقع ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے  اور  سیاسی بندروں کے تگنی کے ناچ نچوانے کا سلسلہ بند کرے(سیاستدان سیاسی قلابازیاں لگانے میں  بندروں کو بھی مات دے چکے ہیں ، اس لیے بندروں سے معذرت) ۔ ورنہ  حالات ترکیہ کی طرح جس طرح صدر ایردوان کے حق میں پلٹے تھے بالکل اسی طرح کسی وقت بھی پاکستان میں بھی  پلٹ سکتے ہیں کسی کو   طاقت کے زعم  میں  نہیں رہنا چاہیے۔طاقت کا سرچشمہ  عوام ہی ہیں  اور عوام ہی کو  فیصلہ کرنے اور ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہونا چاہیے ۔ ویسے بھی عوام فیصلہ کرچکے ہیں  اور سب کو معلوم ہے ستر فیصد عوام کا فیصلہ کس کے حق میں ہوگا؟  یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور عوامی طاقت اور سوشل میڈیا  جب  یکجا  ہوتے ہیں تو تمام   ڈگڈگی بجانے اور ڈگڈگی کی دھن پر قائم ہونے والے جماعتوں کو بہا کر لے جاتے ہیں۔ ہمیں ترکیہ کی 16 جولائی 2015 کی ناکام بغاوت  سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

    16 جولائی 2015 ناکام بغاوت

    ۔۔۔۔ ڈرو اس وقت سے جو آنے والا ہے۔۔۔۔

    Share. Facebook Twitter Pinterest LinkedIn Tumblr Email
    Previous Articleجہانگیر ترین نے نئی سیاسی جماعت ’استحکام پاکستان پارٹی‘ کے قیام کا باضابطہ اعلان کردیا
    Next Article

    جمہوریہ ترکیہ کی تاریخ میں پہلی بار مرکزی بینک میں (اسٹیٹ بینک) خاتون گورنر تعینات، بینک پالیسیوں میں تبدیلی کا عندیہ

    وزیر خزانہ مہمت شمشیک کی گورنر مرکزی بینک کو مکمل آشیر باد

    سلمان پاک ترک

    Related Posts

    وزیرِاعظم شہباز شریف کی صدر رجب طیب ایردوان سے نہایت گرمجوش اور پُرخلوص ملاقات ، پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات میں نئی جہت

    پاکستان-ترکیہ کااسٹریٹجک شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کا عزم

    25مئی , 2025

    وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف صدر  ایردوان اور   ترکیہ سے اظہار تشکر کے لیے استنبول پہنچ گئے ہیں

    25مئی , 2025

    وزیراعظم شہباز شریف کا ترکیہ کا دورہ تشکر، برادرانِ وقت: ترکیہ اور پاکستان کی عظیم الشان رفاقت کی داستان جو دنیا کے لیے بے نظیر مثال ہے

    ایردوان – شہباز وژن سے دونوں ممالک کے تعلقات نئی بلندیوں پر

    24مئی , 2025

    Leave A Reply Cancel Reply

    Your browser does not support the video tag.
    کیٹگریز
    • پاکستان
    • پاکستان کمیونٹی
    • ترکیہ
    • تعلیم
    • دلچسپ حقائق
    • دنیا
    • کالم اور مضامین
    • میگزین
    • ویڈیو
    ٹیگز
    #اسرائیل #حقان فیدان #حماس #سیاحت #غزہ #فلسطین آئی ٹی استنبول اسلام آباد افراطِ زر الیکشن 2024 انتخابات انقرہ اپوزیشن ایردوان بھونچال بیسٹ ماڈل آف ترکیہ ترقی ترک صدی ترک میڈیا ترکیہ تعلیم حزبِ اختلاف دنیا دہماکہ دی اکانومسٹ روس سلائِڈر سلائیڈر--- شہباز شریف صدر ایردوان صدر ایردوان، وزیراعظم شہباز شریف، پاکستان، ترکیہ عدلیہ عمران خان فیچرڈ قاتلانہ حملہ لانگ مارچ مغربی میڈیا ملت اتحاد وزیراعظم وزیراعظم شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف، صدر ایردوان، پاکستان، امداد پاکستان پاک فوج یورپ
    • Facebook
    • Twitter
    • Instagram
    اہم خبریں

    وزیرِاعظم شہباز شریف کی صدر رجب طیب ایردوان سے نہایت گرمجوش اور پُرخلوص ملاقات ، پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات میں نئی جہت

    پاکستان-ترکیہ کااسٹریٹجک شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کا عزم

    وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف صدر  ایردوان اور   ترکیہ سے اظہار تشکر کے لیے استنبول پہنچ گئے ہیں

    وزیراعظم شہباز شریف کا ترکیہ کا دورہ تشکر، برادرانِ وقت: ترکیہ اور پاکستان کی عظیم الشان رفاقت کی داستان جو دنیا کے لیے بے نظیر مثال ہے

    ایردوان – شہباز وژن سے دونوں ممالک کے تعلقات نئی بلندیوں پر

    سفیرِ پاکستان ، ڈاکٹر یوسف جنید، ترکیہ میں پاکستان کا روشن چہرہ، ترکیہ کی کھلی حمایت حاصل کرنےمیں پس پردہ سفارتی حکمتِ عملی کا اعلیٰ نمونہ

    سفیرِ پاکستان کی ترکیہ کیساتھ جذباتی وابستگی اور قلبی سفارتکاری کی نئی جہت

    کیٹگریز
    • پاکستان
    • پاکستان کمیونٹی
    • ترکیہ
    • تعلیم
    • دلچسپ حقائق
    • دنیا
    • کالم اور مضامین
    • میگزین
    • ویڈیو
    مقبول پوسٹس

    وزیرِاعظم شہباز شریف کی صدر رجب طیب ایردوان سے نہایت گرمجوش اور پُرخلوص ملاقات ، پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات میں نئی جہت

    پاکستان-ترکیہ کااسٹریٹجک شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کا عزم

    25مئی , 2025

    وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف صدر  ایردوان اور   ترکیہ سے اظہار تشکر کے لیے استنبول پہنچ گئے ہیں

    25مئی , 2025
    Tr-Urdu All Rights Reserved © 2022
    • صفحہ اول
    • ترکیہ
    • پاکستان
    • پاکستان کمیونٹی
    • کالم اور مضامین
    • میگزین
    • تعلیم
    • ویڈیو
    • دلچسپ حقائق
    • دنیا

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.