Tr-Urdu
    Facebook Twitter Instagram
    Facebook Twitter Instagram
    Tr-Urdu
    Subscribe
    • صفحہ اول
    • ترکیہ
    • پاکستان
    • پاکستان کمیونٹی
    • کالم اور مضامین
    • میگزین
    • تعلیم
    • ویڈیو
    • دلچسپ حقائق
    • دنیا
    Tr-Urdu
    You are at:Home»پاکستان»تاریخ کی روشنی میں پاک – ترک تعلقات، برصغیر پاک و ہند میں ترک حکمرانوں کے حملے، آمد ، حاکمیت اور اُردوزبان کی اشاعت و ترویج تحریکِ خلافت، اقبال کی مہم، تحریک آزادی اور پاک ترک سفارتی تعلقات
    پاکستان

    تاریخ کی روشنی میں پاک – ترک تعلقات، برصغیر پاک و ہند میں ترک حکمرانوں کے حملے، آمد ، حاکمیت اور اُردوزبان کی اشاعت و ترویج

    تحریکِ خلافت، اقبال کی مہم، تحریک آزادی اور پاک ترک سفارتی تعلقات

    ڈاکٹر فرقان حمیدBy ڈاکٹر فرقان حمید4فروری , 2025Updated:4فروری , 2025کوئی تبصرہ نہیں ہے۔10 Mins Read
    پاک-ترک
    پوسٹ شئیر کریں
    Facebook Twitter LinkedIn Email

    تحریر  :   ڈاکٹر فرقان حمید  

     

    ترکیہ اور پاکستان  دنیا میں دو ایسے ممالک ہیں  جس کے عوام  اپنے  ملک کے قیام  یا پھر آزادی حاصل کرنے سے قبل ہی ایک دوسرے سے گہری محبت کرتے چلےآرہے  ہیں اور  ان دونوں ممالک کے درمیان یہ محبت، پیار الفت ، پریم   اور عشق  دنیاکے لیے ایک مثال کی حیثت رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان تعلقات کے بارے میں اکثر ترک کہتے ہیں: Pakistan deyince, akan sular duruyor یعنی  پاکستان کا نام  آتے ہی بہتا پانی تک رک جاتا ہے۔ علاوہ ازیں  ان دونوں ممالک کو” یک جان دو قالب ، ایک قوم دو  ریاستیں  "کہہ کر بھی  پکارا جاتا ہے۔

    ان دونوں ممالک کے دکھ سکھ،   خوشیاں  اور  تاریخ سانجھی ہی  ہے۔ اگرچہ پاکستان میں عام طور پر  محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ ہی  ہندوستان میں اسلام کی اشاعت  کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن دراصل ہندوستان  میں پہلی اسلامی سلطنت  یا پہلا حکمران جسےخلافتِ عباسیہ  کی جانب سے  سلطان  کا لقب عطا کیا گیا   تھا وہ  سلطان محمود غزنوی ہی تھے۔

    سلطان_محمود_غزنوی

      سلطان محمود غزنوی   2 نومبر 971 میں بخارہ  میں مملوک (خاندانِ غلامہ )  ترک کمانڈر سبک تگین کے ہاں پید ا ہوئے  اور پھر سلطان  محمود غزنوی نے  ہندستان پر 11 بار حملے کرتے ہوئے  علاقے میں اپنی حاکمیت قائم کی ۔

    اُردو زبان

    اُردو زبان  ان ہی کے سپاہیوں(لشکر)کی جانب سے تمام علاقائی زبانوں کے الفاظ کو یکجا کرتے ہوئے استعمال کیے جانے کے باعث  اُردو (لشکر)  کے نام سے معرضِ وجود میں آئی  اور  پورے ہندوستان میں وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتی اور پھولتی  چلی گئی ۔  غزنوی   خاندان کے بعد غوری حکمرانوں پھر خاندانِ  غلامہ یا مملوکوں نے  دہلی  ترک سلطنت   جس کے بانی قطب الدین ایبک  تھے  حکمرانی قائم کیے رکھی۔ 

    قطب الدین ایبک

    چودہویں صدی میں ،  خلجی خاندان اور تغلق خاندان، ان  سب کا  تعلق  بھی  ترک گھرانوں  سے تھا۔

    خلجی خاندان
    تغلق حکمران

      جنہوں نے ہندوستان میں اپنی حکمرانی قائم کیے رکھی۔

    مغل حکمران

    ان کے بعد   ظہیر الدین  بابر  نے 26 دسمبر 1530 میں مغلیہ سلطنت قائم کی   تو ہمایوں،  اکبر اعظم، جہانگیر ، شاہ جہان اور  عالمگیراس دور کے عظیم ترک حکمران تھے جبکہ  بعد میں آنے والے تمام مغل حکمران  اپنی حاکمیت کھوتے چلے گئے اور بہادر شاہ ثانی کے بعد انگریزوں نے سرکاری طور پر   ہندوستان  پر اپنی حاکمیت قائم کرلی  اور سلطنتِ مغلیہ کا چراغ  ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھ کر رہ گیا۔

    مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد انگریزوں نے  ہندوستان پر قبضہ کرلیا  تو ہندوستان کے مسلمانوں نے سلطنتِ عثمانیہ  کے حکمرانوں ہی کو  اپنا خلیفہ سمجھنا شروع کردیا اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے  اتحادی ممالک کی جانب سے  جب  سلطنتِ عثمانیہ کے مختلف  علاقوں پر قبضہ کر نے  اور سلطنتِ عثمانیہ  کے  خاتمےکے لیے حملوں کا سلسلہ شروع کیا تو برصغیر کے مسلمانوں نے  مولانا  محمد علی جوہر  اور مولانا شوکت علی جوہر کی قیادت میں  تحریک خلافت کا آغاز کردیا  ۔

    تحریک خلافت

      تحریک خلافت نے  پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا  ۔  عوام  خلافت کےبچاو کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ  ترکوں پر نڈھال  کرنے کے لیے تیار تھے ، علّامہ اقبالؒ ترکوں کے لیے شروع کردہ چندہ مہم  کے دوران   1912 میں  بادشاہی مسجد لاہور میں  انتہائی اثر انگیز انداز میں طرابلس کے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش   کرنے کے لیے  پیش کردہ  نظم نے پورے مجمعے کو رلا کر رکھ دیا   اور خود بھی رو  پڑے۔

    علامہ محمد اقبال

     نظم میں علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ وہ جب حضرت محمد   ﷺ کے حضور   پیش ہوئے تو  حضرت محمد   ﷺ  نے پوچھا

    ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟

    ”حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی

    تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

    ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں

    وفا کی جس میں ہو بو’ وہ کلی نہیں ملتی

    مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں

    جو چیز اس میں ہے’ جنت میں بھی نہیں ملتی

    جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں

    طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں

    بھلا یہ تو بتا کہ ہمارے لیے کیا تحفہ لایا ہے؟‘‘

      اس چندہ مہم نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا  جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے( اور ترک آج بھی برصغیر کے مسلمانوں کے اس جذبے کو فراموش نہیں کرسکے ہیں )   اس وقت غربت کے مارے ہندوستان  کے  مسلمانوں نے  ڈیڑھ ملین اسٹرلنگ پونڈ  پونڈ جمع کرتے ہوئے   حکومتِ ترکیہ کو روانہ کیے۔خواتین  نے ترکوں کی امداد کے لیے اپنے زیورات تک   دینے میں ذرہ بھر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ (بعد میں  اسی رقم سے  ترکیہ کے اش بینک  کو قائم کیا گیا )

    اِش بینک-ترکیہ

    ترک آج بھی  علامہ محمد اقبال کے ان اشعار کو جب بھی سنتے ہیں  یا صدر ایردوان   اپنے جلسوں میں  ان اشعار کو پیش کرتے ہیں  آج بھی مجمعے میں ہر آنکھ اشک بار ہو جاتی ہے۔

    غازی مصطفی کمال اتاترک

     یہی وجہ ہے کہ جب مصطفے کمال پاشا نے 1922 ء میں سکاریہ کی جنگ میں غیر ملکی قوتوں ( یونانیوں اور انگریزوں کے خلاف فتح حاصل کر کے ترکوں کی غیرت مندی ، عزم و حوصلے ، ہمت و جرات اور بہادری کا لوہا دنیا سے منوالیا تو اقبال نے اپنے آپ کو اس فتح اور مسرت میں شریک سمجھا اس لیے مصطفے کمال کی کامیابی میں انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آئی اور اس کامیابی کوانہوں نے طلوع اسلام سے تعبیر کیا ۔ ان کے خیال میں اب اس دور کا آغاز ہو گیا تھا ، جس کا خواب وہ ایک عرصے سے دیکھ رہے تھے ۔ ان کی یہ نظم جنگ سکاریہ  میں مصطفے کمال کی اسی کامیابی کے پس منظر میں لکھی گئی ہے ۔

    قائد اعظم محمد علی جناح

    پاکستان کے بانی  قائد اعظم محمد علی جنا ح،  غازی  مصطفےٰ کمال اتاترک  سے بہت متاثر تھے  ۔ویسے  بھی  دونوں   رہنماؤں کے درمیان بڑی حد تک مشابہت  پائی جاتی ہے تو فرق بھی موجود ہے۔ محمد علی جناح  ایک منجھے ہوئے  وکیل تھے  اور انہوں نے ہندوستان میں       مذاکرات اور سیاسی جدو جہد  جاری رکھتے ہوئے نئی مملکت "پاکستان ” کے قیام  کی راہ ہموار کی تھی جبکہ  غازی مصطفیٰ کمال اتاترک نے سلطنتِ  عثمانیہ کے مختلف حصوں پر قابض اتحادی  افواج    سے جنگ کرتے ہوئے  پورے اناطولیہ اور تھریس کے ایک حصے  پر مشتمل نئی مملکت ” ترکیہ  ” کے نام سے قائم کی۔    یعنی  قائد اعظم نے اس وقت کی سپر  قوت برطانیہ  سے سیاسی  جدو جہد کے نتیجے میں  نئی مملکت  قائم کی تو   اتاترک نے  اس وقت کی سپر قوت برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک کو جنگ کے میدان میں شکست دیتے ہوئے نئی مملکت کو تشکیل دیا  ۔ اتاترک نے  جدید جمہوریہ ترکیہ کے قیام کے 15 سالوں تک ملک بھر میں جدید انقلابات برپا کرتے ہوئے مملکت کو جدید خطور پر استوار کیا لیکن  بد قسمتی سے  قائد اعظم محمد علی جناح کو قیام پاکستان کے بعد ایک سال ہی خدمت کرنے کا موقع میسر آیا لیکن انہوں  نے پاکستان کے مستقبل کے نظام  کو  وضح کردیا تھا۔ قائد اعظم  ، اتاترک کی جدید خیالات کے مالک انسان تھے اور انہوں نے پاکستان کو اس وقت ایک سیکولر  مملکت بنانے تشکیل دینے کی کوشش کی  تھی اور اس وجہ سے انہوں نے پاکستان کا نام ” جمہوریہ پاکستان”(قائد اعظم کی وفات  کے  بعد اس نام  میں اسلام کے لفاظ کا اضافہ کردیا گیا    ) رکھا تھا   اور اقلیتوں کو  مسلمانوں کے برابر  ہی حقوق دینے کا عندیہ دیا    تھا ۔ انہوں نے   اپنی 14 اگست کی تقریر میں واضح طور پر کہہ دیا  تھا کہ یہاں ہندووں اور دیگر تمام اقلیتوں  کو بالکل اکثریت  کی طرح حقوق حاصل ہوں گے اور تمام  انسانوں کو اپنے مذاہب پر اسی طرح  عمل درآمد کرنے کا حق حاصل ہوگا جس طرح مسلمانوں کو حاصل ہے  ۔  اتاترک نے جدید جمہوریہ ترکی کی بنیاد ہی سیکولر نظرے پر رکھی تھی۔ قائد اعظم  ،  علامہ اقبال اور ہندوستان کے مسلمان ،  اتاترک کی جنگ نجات کے دوران بہادری کے کارناموں سے بڑے متاثر تھے اور انہیں مسلمانوں  کا ایک عظیم  رہنما سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے کچھ عرصے  جب سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی تو  انہوں نے سن 1930 میں لندن میں اپنے قیام کے دوران ایچ سی  آرمسٹرونگ کی کتاب ” گرے وولف” کو دو دن کے اندر اندر ہی  پڑھ ڈالا۔

    قائد اعظم محمد علی جناح -اور ان کی صاحبزادی دینا واڈیا

    قائد اعظم نے اپنی صاحبزادی کو بھی اس کتاب کو پڑھنے کی تلقین کی تھی۔  جناح ” گرے وولف”  کتاب کے ہیرو اتاترک سے  بڑے متاثر تھے   اور ان کی صاحبزادی  دینا واڈیا  اس عرصے  قائد اعظم کو ”  گرے وولف”کہہ کر ہی پکارتی  تھیں۔  یہ بھی یاد رکھیے کہ دونوں رہنماؤں کی مائیں بڑی کنزرویٹو     اور مذہبی تھیں۔

    اتاترک اور قائد اعظم  دونوں ہی اپنے اپنے ملک کو جدید خطوط  پر استوار کرنے کے خواہاں تھے  اور مملکت   کے نظم و نسق کو  جدید جمہوری نظام کے ذریعے ہی چلانا چاہتے تھے۔ اگرچہ دونوں  رہنما سامراجیت کے خلاف ہمیشہ لڑتے رہے ہیں  لیکن وہ ان مغربی  ممالک کی ترقی، سائنس، ٹیکنولوجی  سے بڑے متا  ثر تھے ۔ دونوں رہنما ملک کے اندر اور بیرونِ ملک امن و امان کے قیام کو بہت اہمیت دیتے تھے۔اتاترک کا مشہور قول ہے ” ملک میں امن ، دنیا میں امن "جبکہ قائد اعظم  نے 15 اگست  1947 کو قیام  پاکستان کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” ہمارا مقصد ملک میں  اور دنیا میں امن قائم کرنا ہے” اتاترک ہمیشہ  کام اور اعتماد کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں تو قائد اعظم ” ایمان ، اتحاد تنظیم”    کا پرچار کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ دونوں رہنما کو ایک دوسرے سے ملنے کا کوئی موقع میسر نہ آیا   لیکن قائد اعظم کے دل میں اتاترک کے بارے میں بڑی محبت اور احترام پایا جاتا تھا۔ اس لیے جب 1938 میں اتاترک نے وفات پائی تو قائد اعظم نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ” عالم اسلام ایک عظیم ہستی سے محروم ہوگیا ہے۔قائد اعظم کی کوششوں  ہی سے مسلم لیگ کے سالانہ کنونشن میں انہیں  ایک  عظیم شخصیت  اور  ایک  عظیم جنرل   قرار دیتے ہوئے ، اتحادی قوتوں کو  شکست  سے دوچار  کرنے، انقلابات برپا کرنے  اور ملک کو نہایت  ہی مختصر  مدت  میں  ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور عالمِ اسلام کا رہنما قرار دیتے ہوئے اتاترک  کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔

    ترکیہ میں پاکستان کے پہلے سفیر- میاں بشیر احمد

    قیام پاکستان کے فورا بعد قائد اعظم نے دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات  قائم کرنے کو بڑی اہمیت دی اور ترکیہ  میں  علمی اور ادبی شخصیت میاں    بشیر احمد کو پاکستان کا پہلا سفیر نامزد کیا۔

    پاکستان میں ترکیہ کے پہلے سفیر یحیٰ بیاتلی قائد اعظم کے ساتھ

    جبکہ ترکیہ نے   بھی  اپنے دور کی   مشہور علمی  و ادبی شخصیت     یحییٰ  کمال بیاتلی  نے 4  مارچ 1948 کو قائد اعظم کو اسنادسفارت پیش  کیے۔  اس موقع پر قائد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ” میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان  کے عوام آپ کے ملک کو بڑی قدرو منزلت   کی نگاہ سے  دیکھتے ہیں ۔اب دونوں ممالک   کو آزاد اور  خودمختیار ہونے  کے ناتے ایک دوسرے کے  ساتھ تعلقات کو مزید فروغ  دینا ہوگا ۔ اس طرح ان  دونوں ممالک کے درمیان77  سال قبل سفارتی تعلقات قائم ہوئے جو آج بھی پہلے روز کی طرح  بڑے گہرے اور قریبی ہیں اور ان تعلقات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

    Share. Facebook Twitter Pinterest LinkedIn Tumblr Email
    Previous Article

    بے نظیر اور لازوال حیثیت کے حامل پاک – ترک تعلقات، پاکستان اور ترکیہ یک جان دو قالب ، ایک قوم دو ریاستیں

    پاکستانیوں کو ترکوں پر اور ترکوں کو پاکستانیوں پر فخر ہے

    Next Article

    ترکیہ بڑی سرعت سےسُپر قوت بننے کی راہ پر گامزن،سفارتی کامیابیوں پردنیا کی نظریں ترکیہ اور ترکیہ کے ثالثی کے کردار پر مرکوز ہو کر رہ گئیں

    ترک ڈرانز اورسٹیلتھ جنگی طیارے قاآن نے دنیا پر اپنی دھاک بیٹھا دی

    ڈاکٹر فرقان حمید

    Related Posts

    وزیرِاعظم شہباز شریف کی صدر رجب طیب ایردوان سے نہایت گرمجوش اور پُرخلوص ملاقات ، پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات میں نئی جہت

    پاکستان-ترکیہ کااسٹریٹجک شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کا عزم

    25مئی , 2025

    وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف صدر  ایردوان اور   ترکیہ سے اظہار تشکر کے لیے استنبول پہنچ گئے ہیں

    25مئی , 2025

    وزیراعظم شہباز شریف کا ترکیہ کا دورہ تشکر، برادرانِ وقت: ترکیہ اور پاکستان کی عظیم الشان رفاقت کی داستان جو دنیا کے لیے بے نظیر مثال ہے

    ایردوان – شہباز وژن سے دونوں ممالک کے تعلقات نئی بلندیوں پر

    24مئی , 2025

    Leave A Reply Cancel Reply

    Your browser does not support the video tag.
    کیٹگریز
    • پاکستان
    • پاکستان کمیونٹی
    • ترکیہ
    • تعلیم
    • دلچسپ حقائق
    • دنیا
    • کالم اور مضامین
    • میگزین
    • ویڈیو
    ٹیگز
    #اسرائیل #حقان فیدان #حماس #سیاحت #غزہ #فلسطین آئی ٹی استنبول اسلام آباد افراطِ زر الیکشن 2024 انتخابات انقرہ اپوزیشن ایردوان بھونچال بیسٹ ماڈل آف ترکیہ ترقی ترک صدی ترک میڈیا ترکیہ تعلیم حزبِ اختلاف دنیا دہماکہ دی اکانومسٹ روس سلائِڈر سلائیڈر--- شہباز شریف صدر ایردوان صدر ایردوان، وزیراعظم شہباز شریف، پاکستان، ترکیہ عدلیہ عمران خان فیچرڈ قاتلانہ حملہ لانگ مارچ مغربی میڈیا ملت اتحاد وزیراعظم وزیراعظم شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف، صدر ایردوان، پاکستان، امداد پاکستان پاک فوج یورپ
    • Facebook
    • Twitter
    • Instagram
    اہم خبریں

    وزیرِاعظم شہباز شریف کی صدر رجب طیب ایردوان سے نہایت گرمجوش اور پُرخلوص ملاقات ، پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات میں نئی جہت

    پاکستان-ترکیہ کااسٹریٹجک شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کا عزم

    وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف صدر  ایردوان اور   ترکیہ سے اظہار تشکر کے لیے استنبول پہنچ گئے ہیں

    وزیراعظم شہباز شریف کا ترکیہ کا دورہ تشکر، برادرانِ وقت: ترکیہ اور پاکستان کی عظیم الشان رفاقت کی داستان جو دنیا کے لیے بے نظیر مثال ہے

    ایردوان – شہباز وژن سے دونوں ممالک کے تعلقات نئی بلندیوں پر

    سفیرِ پاکستان ، ڈاکٹر یوسف جنید، ترکیہ میں پاکستان کا روشن چہرہ، ترکیہ کی کھلی حمایت حاصل کرنےمیں پس پردہ سفارتی حکمتِ عملی کا اعلیٰ نمونہ

    سفیرِ پاکستان کی ترکیہ کیساتھ جذباتی وابستگی اور قلبی سفارتکاری کی نئی جہت

    کیٹگریز
    • پاکستان
    • پاکستان کمیونٹی
    • ترکیہ
    • تعلیم
    • دلچسپ حقائق
    • دنیا
    • کالم اور مضامین
    • میگزین
    • ویڈیو
    مقبول پوسٹس

    وزیرِاعظم شہباز شریف کی صدر رجب طیب ایردوان سے نہایت گرمجوش اور پُرخلوص ملاقات ، پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات میں نئی جہت

    پاکستان-ترکیہ کااسٹریٹجک شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کا عزم

    25مئی , 2025

    وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف صدر  ایردوان اور   ترکیہ سے اظہار تشکر کے لیے استنبول پہنچ گئے ہیں

    25مئی , 2025
    Tr-Urdu All Rights Reserved © 2022
    • صفحہ اول
    • ترکیہ
    • پاکستان
    • پاکستان کمیونٹی
    • کالم اور مضامین
    • میگزین
    • تعلیم
    • ویڈیو
    • دلچسپ حقائق
    • دنیا

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.