Tr-Urdu
    Facebook Twitter Instagram
    Facebook Twitter Instagram
    Tr-Urdu
    Subscribe
    • صفحہ اول
    • ترکیہ
    • پاکستان
    • پاکستان کمیونٹی
    • کالم اور مضامین
    • میگزین
    • تعلیم
    • ویڈیو
    • دلچسپ حقائق
    • دنیا
    Tr-Urdu
    You are at:Home»ترکیہ»ترکی بہ ترکی
    ترکیہ

    ترکی بہ ترکی

    سیاحت، غیرملکی اور ترک ثقافت
    صغیر رامےBy صغیر رامے10دسمبر , 2023Updated:10دسمبر , 2023کوئی تبصرہ نہیں ہے۔9 Mins Read
    پوسٹ شئیر کریں
    Facebook Twitter LinkedIn Email

    میں نے اور ترکیہ میں مقیم میرے جیسے بےشمار غیرملکیوں نے ترکش سوسائٹی کا ماحول بدلتے دیکھا ہے۔ 2018 سے 2023 تک کا عرصہ کچھ زیادہ طویل عرصہ نہیں ہے۔ 2018 میں سب کچھ ایسا نہیں تھا جو اب ہو چکا ہے۔ اپنے وطن سے ترکیہ کو اپنا وطن سمجھ کر ترکیہ میں اترنے والے سب قدم آج خوف کی فضا میں سانس لے رہے ہیں، ایک انجانے خوف نے ذہنی آزادی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ پبلک کے ہجوم میں پبلک کا حصہ محسوس ہونے کی بجائے پبلک میں ایلین ہونے کے تاثرات پروان چڑھ
    رہے ہیں۔ ایک انجان خوف ہر وقت سائے کی طرح پیچھا کرتا دیکھائی دیتا ہے۔
    میں نے 2018 میں ترکیہ میں جب پہال قدم رکھا تھا تو معاشرے میں ایک خوشگوار ماحول کی وجہ سے ذہنی سکون محسوس ہوتا تھا۔ ترک بھائیوں کی طرف سے سب اچھا کا تاثر تھا۔ بھائی چارے اور دوستی کی فضا تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اپنے ملک سے نکل کر پھر اپنے ملک میں ہی آ اترا ہوں۔ یہ صرف میرے تاثرات نہیں تھے بلکہ میرے ساتھ آئے ہوئے لگ بھگ تین درجن صحافی اور ممبران پارلیمنٹ کے بھی کچھ ایسے ہی جذبات و خیالات تھے۔ تقریباً گیارہ دن کے قیام میں کبھی کسی
    تعصب یا دو قومی نقطہ نظر کا شائبہ تک نہ تھا۔ استنبول سے انقرہ تک کے سفر میں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں، سیاسی، فکری و شعوری اختلاف رائے کے علاوہ کسی قسم کا کوئی نسلی تعصب بالکل دیکھنے میں نہیں ملا۔ ڈاکٹر فرقان حمید کی میزبانی اور ترجمانی میں یہ ایک صحافتی دورے کے ساتھ ساتھ ایک ثقافتی تعلیمی دورہ بھی تھا جس میں سب صحافیوں کی زیادہ تر کوشش صحافی طریقہ کار سمجھنے کے ساتھ ساتھ ثقافتی روایات کو سمجھنا بھی تھا۔ اس وزٹ میں مختلف ٹیلی ویژن کے دفاتر کا وزٹ بھی شامل تھا جن میں صحافتی بریفنگ کے ساتھ ساتھ سوال و جواب کے سیشن کے انعقاد نے اس قلیل عرصہ میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ 
    دو سال بعد جس پاکستان چھوڑنے کا مشکل فیصلہ کرنا پڑا تو یہ ایک بڑا فیصلہ تھا جو نہ صرف معاشی اعتبار سے بڑا رسک تھا بلکہ آنے والی نسل کے مستقبل کے لئے یہ انتہائی حساس فیصلہ بھی تھا۔ ایک صحافی چھوٹے بڑے فیصلوں کو ہر زاویے سے بہتر طور پر پرکھتا ہے اور فیصلوں کے دور رس نتائج سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ میرے لیے امریکہ، برطانیہ، کینیڈا یا آسٹریلیا جیسے ممالک یا مڈل ایسٹ کی طرف حجرت کرنا مشکل نہیں تھا لیکن اس کے آنے والی نسلوں پر بہت ہی دوررس اور گہرے اثرات مرتب ہونے کا خوف تھا۔ مختلف ممالک میں دوستوں سے مشورے کئے اور مختلف ممالک میں حالات کا خاص طور پر 11/9 کے بعد مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر فیصلے میں کافی دشواری کا سامنا تھا۔ مڈل ایسٹ میں اسلامو فوبیا تو نہیں تھا لیکن مڈل ایسٹ میں اسلامو فوبیا سے بھی بھیانک صورتحال نظرآئی جس پر پھر کسی کالم میں تفصیل بیان کروں گا۔ اس بڑے فیصلے میں مختلف ممالک میں مقیم دوستوں کی رائے، مشورے اور بین االقوامی صورتحال کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے باآخر ترکیہ میں شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں کاوشیں شروع کیں جس کے لئے مجھے ترکیہ میں متعدد بار وزٹ کرنا پڑا اور یہاں پر موجود دوست احباب سے جانکاری کے لئے رابطے کئے خاص طور پر ڈاکٹر فرقان حمید کی مدد اور رہنمائی نے فیصلہ سازی میں آسانی پیدا کی۔ زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کیا اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنی جنم بھومی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ چھاڑ کر ترکیہ کو اپنا مسکن بتایا۔ سب کچھ بہترین تھا، ترکیہ کے عوام محبت کرنے والے، بھرپور رہنمائی کرنے والے، دل سے اچھے تعلقات کے خواہاں اور مددگار تھے۔ جس سے بھی ملتے تھے وہ گرم جوشی سے استقبال کرتا تھا اور بھرپور رہنمائی بھی کرتا تھا۔ ترک ثقافت میں مہمان نوازی کا ایک خاص مقام ہے اور استنبول شہر تو ویسے بھی ہر سال لگ بھگ پانچ کروڑ افراد کی میزبانی کرتا ہے۔ اور شعبہ سیاحت سے سالانہ 45 ارب ڈالرز کا ریونیو بھی اکٹھا ہوتا ہے۔ 2020 سے 2023 تک تین ایسے بڑے واقعات ہوئے ہیں جن واقعات نے ترکش ثقافت اور روایات کے حسن کو ماند کر کے رکھ دیا ہے۔ پہلا واقعہ پاکستان اور افغانستان سے آئے ہوئے غیرقانونی تارکین وطن کی گھٹیا اور غلیظ ترین حرکت جس میں انہوں نے ترک معاشرے کے سب سے حساس پہلو جس میں خواتین کی عزت اور بچوں سے شفقت شامل ہیں کو پامال کرتے ہوئے
    ایسی نیچ قسم کی ویڈیوز ٹک ٹاک پر اور سوشل میڈیا پر پبلش کیں جس سے نہ صرف ہمارے سر شرم سے جھک گئے بلکہ انسانیت بھی شرمسار ہوئی۔ یہ غیرقانونی تارکین وطن بنیادی طور پر پاکستان اور افغانستان کے دور افتادہ علاقوں سے غیرقانونی طور پر یہاں پہنچتے ہیں جو کہ بذات خود ایک غیرقانونی عمل اور جرم ہے لہذا ہم ان سے اخلاقی اور قانونی اقدامات کی رتی برابر بھی توقع نہیں رکھتے۔ ان کی اس حرکت نے شخصی تشخص کے ساتھ ساتھ ملکی اجتماعی تشخص کو بھی بہت بڑی طرح پامال کیا اور پاکستان اور ترکیہ کی مثالی دوستی میں پہلی مرتبہ ترک معاشرے اور ترک سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف رائےعامہ دیکھنے کو ملی۔ ترک عوام نے تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانیوں کو نکالو اور ترکیہ میں پاکستانی نہیں چاہئیں اور ایسے القابات سے سوشل میڈیا ٹرینڈ چلے جس کو لکھتے ہوئے بھی مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ترک معاشرے میں پاکستانی ہونے کا تعارف کروانے پر شرمندگی محسوس ہونے لگی اور گلیوں میں بازاروں میں ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ہر آنکھ ہمیں دیکھ رہی ہے اور ان کی آنکھوں میں چھپے سوالات اور نفرت کے ملی جلے تاثرات نمایاں ہوتے تھے۔ ایسا دکھائی دیتا تھا جیسا کہ وہ گھٹیا و متنازعہ ویڈیوز میں نے پبلش کی ہوں اور ہر کوئی میری طرف ہی سوالیہ انداز سے دیکھ رہا ہو۔ بیرون ملک انفرادی قدم سے قوموں کے تعلقات پر کتنے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ واقعہ اس کی ایک زندہ مثال تھی۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب نہ صرف بچوں کو بلا ضرورت باہر جانے پر احتیاط برتنے کا کہا بلکہ یہ بھی ہدایات دیں کہ اگر کوئی سخت جملہ کہہ بھی دے تو برداشت کا مظاہرہ کرنا ہے کیونکہ وہ ہمارے لوگوں کے ہاتھوں اس وقت زخمی ہیں۔ ایک سال گزرنے کو ہے لیکن معاشرے میں اس زہر پاشی کے اثرات آج بھی دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے واقعات کے اثرات ابھی زائل نہیں ہوئے تھے کہ ترکیہ میں صدارتی انتخابات کا وقت آن پہنچا۔ صدر رجب طیب ایردوان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے انتخابات میں ووٹ بنک بڑھانے اور عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے ترکیہ میں مقیم غیرملکی افراد کو  اپنے سیاسی فائدے کے لئے ایک مرتبہ پھر سے ٹارگٹ کیا اور اپنے انتخابی منشور اور نعروں میں توپوں کا رخ ترکیہ میں مقیم غیرملکیوں کی طرف کر دیا۔ ممکن ہے کہ انہیں اس عمل میں کچھ سیاسی فائدہ حاصل ہوا ہو لیکن وہ یہ سب کر کے بھی صدر رجب طیب ایردوان کو تو منصب سے نہ گرا سکے لیکن انہوں نے ترکیہ میں مقیم غیرترک افراد کے لئے ایک مرتبہ پھر سے مشکلات کھڑی کر دیں۔ بجائے اس کے کہ ٹارگٹ صرف غیرقانونی تارکین وطن ہوتے اپوزیشن رہنماؤں نے سرمایہ کاروں، سرمایہ کاری سے شہریت حاصل کرنے والوں اور ریزیڈنٹ پرمٹ والوں کو بھی غیرقانونی تارکین وطن کی لائن میں ہی کھڑا کر دیا جس سے معاشرے میں ایک مرتبہ پھر سے غیرترک و غیرملکی افراد کو معاشرے میں مجرم کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ اپوزیشن اتحاد کی طرف سے کھل کر کہا جانے لگا کہ یہ غیرملکی افراد ان کے وسائل استعمال کر رہے ہیں جبکہ اعدادوشمار اس کے برعکس ہیں کہ غیرملکی افراد اربوں ڈالرز کا سرمایہ ترک اکانومی میں داخل کر رہے ہیں اور ان کے آنے سے ائرپورٹ سے ٹیکسی سے لے کر ہوٹل اور ہوٹل سے گھروں کی تزین و آرائش تک ہر شعبہ زندگی میں معاشی فائدہ ہو رہا ہے۔ ان کے اعدادوشمار بھی کسی کالم میں تفصیل سے بیان کروں گا۔ اپوزیشن اتحاد الیکشن تو ہار گیا لیکن غیرترک و غیرملکی افراد کے لئے ایک بڑا خلاء پیدا کر گیا جس کو پر کرنا مختصر عرصہ میں شائد ممکن نہ ہو۔ مجھے خوف یہ بھی ہے کہ چار ماہ بعد کے بلدیاتی انتخابات میں بھی اگر اپوزیشن جماعتوں نے ایسے ہی غیرذمہ دارانہ سیاسی منشور و نعرے جاری رکھے تو یہ خلاء مزید گہرا ہوگا جسے پر کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ تیسری وجہ جو براہ راست تو شائد ملوث نہیں ہے لیکن میری نظر میں درپردہ اس کے اثرات بھی غیرملکی افراد پر پڑ رہے ہیں۔ یہ وجہ گزشتہ دو سال میں لیرا کی گرتی ہوئی ساکھ اور افراط زر ہے۔ عام ترک افراد یہ بھی رائے رکھتے ہیں کہ غیرملکیوں کے بڑی تعداد میں آنے کی وجہ سے ڈیمانڈ اور سپالئی میں گیپ بڑھتا ہے جس کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوم یہ کہ غیرملکی سرمایہ کاروں کی وجہ سے گھروں کی قیمتوں میں اور کرائے میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ترک کے لئے گھر خریدنا یا کرائے پر لینا ناممکن ہو چکا ہے۔ غیرملکی افراد ہماری سوشل فسیلیٹی جیسا کہ میٹرو ، پارکس ، ساحل سمندر اور ہر طرح کی سیرگاہیں استعمال کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر یہ ٹرینڈ چلتے رہے کہ عید کے دنوں میں غیرملکیوں کی ساحل سمندر اور پارکس وغیرہ میں ویڈیوز پبلش کی گئیں جن کی زیادہ تر سرخیاں تھی کہ اگر غیرملکی اسی طرح بڑھتے رہے تو ترک افراد اپنے بچوں کو لے کر کہاں سیر کرنے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔

    2018 سے 2023 کوئی طویل عرصہ نہیں ہے لیکن ترکیہ اب ویسا نہیں رہا۔ شائدغیرملکی افراد اب اس آزادی سے سانس نہیں لے پا رہے جیسا کہ 2018 یا اس سے پہلے تھا۔ ترکیہ میں نسلی امتیاز کا یہ تاثر پہلے کبھی نہ تھا۔ 

    Share. Facebook Twitter Pinterest LinkedIn Tumblr Email
    Previous Articleغزہ کا دفاع ، استنبول کا دفاع ہے۔ایردوان
    Next Article

    جناح ینگ رائٹرز ایوارڈ، ترکیہ اور پاکستان مشترکہ اقدار، بھائی چارے اور دوستی کے بندھن کابہترین وسیلہ : ترک وزیر تعلیم

    یہ تعلقات مشترکہ مذہبی، ثقافتی ورثہ کا آئینہ ہیں : سفیرِ پاکستان

    صغیر رامے

    Related Posts

    وزیرِاعظم شہباز شریف کی صدر رجب طیب ایردوان سے نہایت گرمجوش اور پُرخلوص ملاقات ، پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات میں نئی جہت

    پاکستان-ترکیہ کااسٹریٹجک شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کا عزم

    25مئی , 2025

    وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف صدر  ایردوان اور   ترکیہ سے اظہار تشکر کے لیے استنبول پہنچ گئے ہیں

    25مئی , 2025

    وزیراعظم شہباز شریف کا ترکیہ کا دورہ تشکر، برادرانِ وقت: ترکیہ اور پاکستان کی عظیم الشان رفاقت کی داستان جو دنیا کے لیے بے نظیر مثال ہے

    ایردوان – شہباز وژن سے دونوں ممالک کے تعلقات نئی بلندیوں پر

    24مئی , 2025

    Leave A Reply Cancel Reply

    Your browser does not support the video tag.
    کیٹگریز
    • پاکستان
    • پاکستان کمیونٹی
    • ترکیہ
    • تعلیم
    • دلچسپ حقائق
    • دنیا
    • کالم اور مضامین
    • میگزین
    • ویڈیو
    ٹیگز
    #اسرائیل #حقان فیدان #حماس #سیاحت #غزہ #فلسطین آئی ٹی استنبول اسلام آباد افراطِ زر الیکشن 2024 انتخابات انقرہ اپوزیشن ایردوان بھونچال بیسٹ ماڈل آف ترکیہ ترقی ترک صدی ترک میڈیا ترکیہ تعلیم حزبِ اختلاف دنیا دہماکہ دی اکانومسٹ روس سلائِڈر سلائیڈر--- شہباز شریف صدر ایردوان صدر ایردوان، وزیراعظم شہباز شریف، پاکستان، ترکیہ عدلیہ عمران خان فیچرڈ قاتلانہ حملہ لانگ مارچ مغربی میڈیا ملت اتحاد وزیراعظم وزیراعظم شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف، صدر ایردوان، پاکستان، امداد پاکستان پاک فوج یورپ
    • Facebook
    • Twitter
    • Instagram
    اہم خبریں

    وزیرِاعظم شہباز شریف کی صدر رجب طیب ایردوان سے نہایت گرمجوش اور پُرخلوص ملاقات ، پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات میں نئی جہت

    پاکستان-ترکیہ کااسٹریٹجک شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کا عزم

    وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف صدر  ایردوان اور   ترکیہ سے اظہار تشکر کے لیے استنبول پہنچ گئے ہیں

    وزیراعظم شہباز شریف کا ترکیہ کا دورہ تشکر، برادرانِ وقت: ترکیہ اور پاکستان کی عظیم الشان رفاقت کی داستان جو دنیا کے لیے بے نظیر مثال ہے

    ایردوان – شہباز وژن سے دونوں ممالک کے تعلقات نئی بلندیوں پر

    سفیرِ پاکستان ، ڈاکٹر یوسف جنید، ترکیہ میں پاکستان کا روشن چہرہ، ترکیہ کی کھلی حمایت حاصل کرنےمیں پس پردہ سفارتی حکمتِ عملی کا اعلیٰ نمونہ

    سفیرِ پاکستان کی ترکیہ کیساتھ جذباتی وابستگی اور قلبی سفارتکاری کی نئی جہت

    کیٹگریز
    • پاکستان
    • پاکستان کمیونٹی
    • ترکیہ
    • تعلیم
    • دلچسپ حقائق
    • دنیا
    • کالم اور مضامین
    • میگزین
    • ویڈیو
    مقبول پوسٹس

    وزیرِاعظم شہباز شریف کی صدر رجب طیب ایردوان سے نہایت گرمجوش اور پُرخلوص ملاقات ، پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات میں نئی جہت

    پاکستان-ترکیہ کااسٹریٹجک شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کا عزم

    25مئی , 2025

    وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف صدر  ایردوان اور   ترکیہ سے اظہار تشکر کے لیے استنبول پہنچ گئے ہیں

    25مئی , 2025
    Tr-Urdu All Rights Reserved © 2022
    • صفحہ اول
    • ترکیہ
    • پاکستان
    • پاکستان کمیونٹی
    • کالم اور مضامین
    • میگزین
    • تعلیم
    • ویڈیو
    • دلچسپ حقائق
    • دنیا

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.